آدھی رات کا فلسفہ
- Razi Haider
- Aug 9, 2016
- 5 min read

ہیت سے اپنی مبرا ہو گیا تھا رات میں
عقلِ کُل سمجھا تھا ذرّا ہو تھا رات میں
ایک ذرّے کو عدم تک پہنچتے صدیوں کا غم ؟ ایک ذرّے کا ہزاروں مار پیچوں سے گزر ؟ شوکرانی سے فنا ہونا کہاں ممکن ہوا؟
ہم چونٹی نما انسان ، بہت سی کالونیوں میں بٹے، رنگ و نسل میں رنگے،اپنےاپنے اوہام کی شہررزادیوں کو پوجنے والے ،
اپنے فریبوں کے تودوں پر مر مٹنے والے
کیا یوں ہی ،زندگی اور موت کے صدیوں کے چنگل میں پھسے رہیں گے؟
صدیوں کا چکرویو گھومتا ہے ، گھومتا رہے گا ؟
میں نے سوچا،
میں،
اس مزدور چونٹی کی طرح جو خودکے وزن سے ہزار گنا زیادہ وزن اٹھا سکتی ہے ،
اس چکرویو کا محور بدل پاؤں گا ، جس کے بعد کوئی وہم کوئی فریب باقی نہیں رہے گا
پھر میں نے سوچا یہ بھی تو ایک فریب ہی ہے ایک اور نیا وہم
یہ ہست و بود و رنگ و بو یہ خوابوں کے حصار ہیں حقیقتیں دلوں میں ہیں پہ دل کے تار تار ہیں
ہر خدا کے مرنے پر ناخدا جنم لیں گے ہم جو غم کے قیدی ہیں ان کو پوجتے ہوں گے
ہو عطا ہم کو بھی ایسی بے دماغی کی کدال جس سے سینے چاک کرنے کا کھلے ہم پر فسوں ایلیا ، اقبال، راشد ،میر و غالب کا وبال کاو کاو رودِ دجلہ ، لابلا سوزِ دروں
اک ترا خواب ہی حقیقت تھا اور جو کچھ تھا بس ہزیمت تھا تیری آنکھوں کے کیسری آنسو میرے سینےمیں ڈوبتا ہو ا دل اس قدر خامشی میں بیچ سفر شام ہونا بڑی عزیّت تھا
اے مری جان شبِ نور کے چندر گیسو شفقِ صبح سے ، مغرب سے کہیں زریں ہیں جن کے پھندوں میں ہیں کندن سےدرخشندہ سراب، دن کے جھانسوں سے، منور ہیں یہ خاموشی کے پل أبو العلاء المعري : اللزوميات ترجمہ : رضی حیدر
شب سیاہ پنکھ پسارے رگِ جاں نوچتی ہے دودھیا کوہ پہ خاموش پڑے ہیں سائے دل شکستہ ہے گگن جس کے اگن رستوں پر مہرِ آزردہ نے تاروں کو بکھیرا ہے ابھی
أبو العلاء المعري : اللزوميات ترجمہ : رضی حیدر
خودکش حملہ وار کا آخری خط
ایک آگ سی سینے میں جل رہی تھی ، کہاں سے اس کا مداوا کرتا کہاں سے لاتا وہ روحِ سیقل جو مجھ کو مجھ سے نجات دیتی میں مر رہا ہوں ، ہر ایک لمحے میں اور لمحوں کے بین السطور میں اینچتا ، کھینچتا ، سڑے جا رہا ہوں وہ کیسا اندھیاو تھا جہاں پر, زمہریری لبادے اوڑے ، کھڑے تھے کائن, جو چیختے تھے ، "سنو سب ختم ہو رہا ہے ، مگر نہ ہونے کے ختم ہم تم ہمیں زبانوں کی نوک در نوک پر اوندھے پڑے ہیں ہمیں وہ معنی ہیں جن نے اب تک کبھی بھی شبدوں کی کوٹھڑی میں قدم نہ رکھا" یہ انفجاروں پہ چند بےچاروں کی موت ہندسوں میں لکھنے والے گو خود خداؤں کے نام لیوا ہیں، تمہیں تو مرنے کا درس دیں گے ,مگر یہ منبر نہ چھوڑنے کے جھوٹ بولتے ہیں یہ دیَوث جو دوام و دیوم کی تھوک میں تیرنے کا تمہیں کہہ رہے ہیں ، تُف ہے ان پر تیر سکتے تو خود تیر لیتے . . . . یہ دیَوث جھوٹ تھوکتے ہیں
یورینیم اگر جلے ،سانسوں کو بال دے چاغی کے آنسوؤں کا سمندر ابال دے
دومیل
سرخ تھا جہلم کا جسم،سبز تھی نیلم کی روح ہم بھی انھیں کی طرح، خاک نما ہو گئے
لگڑ بگڑ عقل دا چبدا دل دا ماس اکھاں جگدیاں روندیاں انھاں عقل نہ آئی راس
کرب کی ناڑ سے بندھی، نطفۂ خام کی لڑی اژگرِ یاسگر یہی ، مژدۂ جاں ستاں یہی
The cord of grief connects to the sperm of mortality Its the python of hopelessness, it is the hope to extinguish
رات ابھی جمی نہیں ، درد ابھی جنا نہیں شعر سے خوں لکھا نہیں ، خون سے تو بنا نہیں
مرے وجود کا خاکہ ، مرے خوابوں کا غبار مرے ابرو ، مرے کولہے ، مرے سینے کا ابھار، مرے سائے کی ادھڑتی ہوئی گانٹھیں،مرے پیر مرا ہر خوف گریفائٹ کے زرروں کی لکیر مری آشفتہ سری، ایک فسانہ تھا جسے میں نے غازے کی تہوں میں ہی چھپائے رکھا پھر یہ سوچا کہ کہوں کچھ تو، وگرنہ یہ حیات پھر سے اک بار مجھے اور کہاں ملنی ہے مری چیخوں کو زباں اور کہاں ملنی ہے
میں : گوشت میں لتھڑی ہوئی اس قوم کے حیلوں بہانوں سا ہے یہ گرداب ، کہ جس میں ہم اور تم فنا ہونے کو ہیں یا فنا ہو بھی چکے ؟
وہ : فنا ہو رہے ہیں (سرگوشی)
تم : مگر جو قمکمیں جلتی ہیں بھجتی ہیں ، یہ آرزوئیں ہی تو ہیں امیدیں ہیں صبح نو کی
میں : امیدیں ، آرزوئیں ، خواب! ہاہ !! ایک اور حیلہ بہانہ ہم جل رہے ہیں ! سنا تم نے ؟ ہم جل رہے ہیں یہ قمقمیں نہیں ہیں .. میری تمہاری وردیاں ہیں سونگھو !! تمہیں پکتے گوشت کی بدبو نہیں آتی یہ ہمارا ہے ! میرا تمہارا گوشت سونگھو!! تم : مجھے نزلہ ہے چند دن سے ، کسی بدبو کی خوشبو کی رسائی ممکن نہیں مجھے تک مگر میں دیکھ سکتا ہوں
میں : تو دیکھو نا !!! یہ سر کٹے بچوں کے ریلے یہ نیلی موچھیں یہ بغلوں میں مسانوں پے بال یہی دیکھ کر تو انہوں نے کہا تھا ، یہ بچے نہیں ہیں یہی دیکھ کر انہوں نے اپنے ایمان محکم کو پختہ کیا تھا
تم : ہان ، انہوں نے کہا تھا یہ بچے نہیں ہیں
میں : تو کیوں امیدوں کی رجا کی بات کرتے ہو ابھی خون ابلے گا ، درد دھواں بن کر بیکراں دل سے نکلے گا تو سنو گے ؟
تم : میں سن تو رہا ہوں
میں : مجھے مت سنو ! یہ چیخیں سنو !!
تم : یہ مدھم سی چیخیں ؟
میں : یہ مدھم کہاں ہیں ؟ قیامت کا ثور پھونکا جا رہا ہے اور تم کہ رہے ہو ، یہ مدھم سی چیخیں ؟ گولیاں ، ہڈیوں میں گھس چکی ہیں ہم جل رہے ہیں ، فنا ہو رہے ہیں
تم : اس گرداب ، اس حیلے بہانوں کے گرداب میں ، جہاں ہم فنا ہو رہے تھے فنا ہو چکے ہیں
raat neem wa ankhon nay ik sapna dekha .. dekha kay main urr raha hon .. aur maira jism nasson ka ghunjhan baysud pera hai
main urr raha hon apnay jism say door .. hawaon main .. her kamzaori , her jismani khahish say paray ..
main nay dekha bhook pyas kay kuhain per .. jahan jismon ka jam.e. ghafeer khara tha .. wahan main nahi tha ..
shehwat kay barhana butt mun kholay .. mujhay bula rahay thay .. per mairay ander .. unhain sajda kernay ki koi khahish nahi thee..
main in sub say paray uray ja raha tha... Jism aur rooh do lakht ho chukay thay ...
jism jo sirf mangta tha.. aur rooh jo sirf sochti hai
زندگی کسی کرگس کی طرح مردہ گوشت پہ پلا کرتی ہے خود کے پنپنے کی روش میں یہ پچھل پیری ، ہر ایک سانس، ہر اک روح ہڑپ جاتی ہے
بج رہے ہیں آج پس منظر میں غمگین ساز کیوں ؟ روح کے پنجر سے پنجرہ بن گئے الفاظ کیوں ؟
وہ کریدے، میرے دل کی کان سے کالا نمک اور چھڑکے زخم پر میرے ، کہے آواز کیوں ؟
ہم کہ خاکی ، خاک بن ، خکستروں میں جا ملے عشق کا جن ، خواب ، غم ، ہیں پیکرے پرواز کیوں ؟
Why is the gloomy music,playing in the background Why my words resurrect from my dead soul to form a cage She shovels from the mine of my heart,a black salt and then puts it on my wounds , to ask why do you cry We were born out of soil, turned in to soil, are now part of the ashes why the demons of love, dreams and grief still fly
جسم سے ، روہے ناتواں نکلے
دام سے، مخمصے کے جاں نکلے
Comments